فراق سایوں کی صورت کبھی ڈھلے گا نہیں
اِس آئینے سے وہ چہرہ کبھی ہٹے گا نہیں
کسی نے ہم کو کہا تھا، ہمارے بعد کبھی
دیا جلاؤ گے، لیکن دیا جلے گا نہیں
یہ ہجرتوں کی کمائی ہے اِس طرح نہ لُٹا
اِن آنسوؤں کے بِنا یہ سفر کٹے گا نہیں
ہماری طرح کہانی، کوئی کہے گا نہیں
ستم شعار! گِلہ تو نہیں، مگر پھر بھی
ہماری طرح کوئی یوں ستم سہے گا نہیں
وہ اپنی ضد میں بھی تنہا ہے، کون اُسکی مثال
وہ جا رہا ہے تو سمجھو کہ اب رُکے گا نہیں
کوئی ہے پہلو میں، دل میں کوئی گُلاب نیا
خیال رکھنا کہ یوں کام اب چلے گا نہیں
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment