Wednesday 18 December 2013

کروں نہ یاد اگر کس طرح بھلاؤں اسے

کروں نہ یاد اگر کس طرح بھلاؤں اُسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں سے
میں کیسے بات کروں اور کہاں سے لاؤں اسے
مگر وہ زُود فراموش، زُود رنج بھی ہے
کہ رُوٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے
وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اسے
جو ہم سفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ
عجب نہیں کہ اگر یاد بھی نہ آؤں اسے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment