Sunday 15 December 2013

خواہش وصل کو صورت وہ عطا کر دی ہے

خواہشِ وصل کو صورت وہ عطا کر دی ہے
ہجر پائندہ رہے ہم نے دُعا کر دی ہے
آئینہ خانے پہ چڑھ دوڑے ہو پتھر لے کر
آئینوں نے کہو کیا ایسی خطا کر دی ہے؟
خاک زادہ ہوں سو قسمت نے گواہی میری
ایک عالم میں مِری خاک اُڑا کر دی ہے
دشت لکھتا ہوں تو دریا ہی لکھا جاتا ہے
پیاس نے مجھ میں وہ ہلچل سی بپا کر دی ہے
فاصلہ دل کا تھا دہلیز سے دو چار قدم
میں نے رستے میں مگر عمر فنا کر دی ہے
رات کیا میں نے درِ خواب پہ دستک دے دی
ہائے آنکھوں نے مِری نیند قضا کر دی ہے
ماوراء ہونے لگا جسم کی حد سے اشرفؔ
جس نے اُس ذات میں گم اپنی اَنا کر دی ہے

اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment