یوں حق کی رَہ میں جان سے جانا پڑا مجھے
اپنے لہو میں آپ نہانا پڑا مجھے
ہر دَور میں یزید مقابل رہا مِرے
ہر بار کربلا کو سجانا پڑا مجھے
سجدہ کناں تھے رات بھی مہر و مہ و نجوم
لیکن یہ خواب سب سے چھپانا پڑا مجھے
پوچھی کسی نے میری حقیقت اگر کبھی
پانی پہ اپنا نقش بنانا پڑا مجھے
آیا نہیں وہ آج بھی، جس شخص کے لیے
رستے میں اپنا آپ بچھانا پڑا مجھے
اشرفؔ برائے روشنی دُنیا کے سامنے
اپنا بجھا چراغ ہی لانا پڑا مجھے
اپنے لہو میں آپ نہانا پڑا مجھے
ہر دَور میں یزید مقابل رہا مِرے
ہر بار کربلا کو سجانا پڑا مجھے
سجدہ کناں تھے رات بھی مہر و مہ و نجوم
لیکن یہ خواب سب سے چھپانا پڑا مجھے
پوچھی کسی نے میری حقیقت اگر کبھی
پانی پہ اپنا نقش بنانا پڑا مجھے
آیا نہیں وہ آج بھی، جس شخص کے لیے
رستے میں اپنا آپ بچھانا پڑا مجھے
اشرفؔ برائے روشنی دُنیا کے سامنے
اپنا بجھا چراغ ہی لانا پڑا مجھے
اشرف نقوی
No comments:
Post a Comment