ہر ایک پَل کی اُداسی کو جانتا ہے تو آ
مِرے وجود کو تُو دل سے مانتا ہے تو آ
وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں
تُو آ رہا ہے، مگر سچ کو مانتا ہے تو آ
مِرے دِیئے نے اندھیرے سے دوستی کر لی
حیات صرف تِرے موتیوں کا نام نہیں
دلوں کی بکھری ہوئی راکھ چھانتا ہے تو آ
تُو میرے گاؤں کے حصے کی چھاؤں بھی لے جا
مگر بدن پہ کبھی دھوپ تانتا ہے تو آ
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment