Friday 20 December 2013

دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے

دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے
زندگی تُو ہی بتا کیسے جیا چاہیے
میری نوائیں الگ، میری دعائیں الگ
میرے لیے آشیاں سب سے جدا چاہیے
نرم ہے برگِ سمن، گرم ہے میرا سخن
میری غزل کے لیے ظرف نیا چاہیے
سر نہ کھپا اے جرس، مجھ کو مرا دل ہے بس
فرصتِ یک دو نفس مثلِ صبا چاہیے
باغ ترا باغباں، تو ہے عبث بدگماں
مجھ کو تو اے مہرباں، تھوڑی سی جا چاہیے
خوب ہیں گل پھول بھی تیرے چمن میں مگر
صحنِ چمن میں کوئی نغمہ سرا چاہیے
ہے یہی عینِ وفا دل نہ کسی کا دُکھا
اپنے بھلے کے لیے سب کا بھلا چاہیے
بیٹھے ہو کیوں ہار کے سائے میں دیوار کے
شاعرو! صورت گرو کچھ تو کیا چاہیے
مانو مری کاظمیؔ تم ہو بھلے آدمی
پھر وہی آوارگی کچھ تو حیا چاہیے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment