دیکھ اے شُعلہ بدن حوصلہ داری میری
خاک تھا، اور رہی آگ سے یاری میری
روک لو اب بھی کسی طرح مِرے اشکِ رواں
یہ نہ ہو تم بھی کرو گریہ زاری میری
کچھ نہیں کھلتا یہ کیا لوگ ہیں اور کیسی قطار
ایک معلوم علاقے کی طرف جاتا ہوں
آسمانوں سے گزرتی ہے سواری میری
کیا کیا جائے گِلہ تجھ سے بہادر سالار
کون ہے جس نے یہاں جنگ نہ ہاری میری
قمر رضا شہزاد
No comments:
Post a Comment