Wednesday, 25 December 2013

مجھ کو رکھتی ہے یہ ناشاد اٹھا لی جائے

مجھ کو رکھتی ہے یہ ناشاد اٹھا لی جائے
زندگی نام کی اُفتاد اُٹھا لی جائے
کب تلک دیکھنی ہے راہ عمارت گر کی
خُود ہی ویرانے کی بُنیاد اُٹھا لی جائے
میرے ہوتے ہوئے نہ ہو گی شراکت دل میں
ہاں یہ پابندی مِرے بعد اُٹھا لی جائے
اپنی مرضی سے ہی پہنا ہے غلامی کا لباس
قید سے پوششِ آزاد اُٹھا لی جائے
تیرے دربار میں بھیجی تو فرشتوں نے کہا
بِیچ چوراہے سے فریاد اُٹھا لی جائے

سدرہ سحر عمران

No comments:

Post a Comment