کون آیا؟ راستے آئینہ خانے ہو گئے
رات روشن ہو گئی دن بھی سہانے ہو گئے
کیوں حویلی کے اُجڑنے کا مُجھے افسوس ہو
سینکڑوں بے گھر پرندوں کے ٹھکانے ہو گئے
جاؤ ان کمروں کے آئینے اُٹھا کر پھینک دو
یہ بھی مُمکن ہے میں نے اس کو پہچانا نہ ہو
اب اسے دیکھے ہوئے کتنے زمانے ہو گئے
میری پلکوں پہ یہ آنسو پیار کی توہین تھے
اسکی آنکھوں سے گرے موتی کے دانے ہو گئے
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment