Friday 20 December 2013

اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے

اِس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں، زخم رہگزاروں کے
خلوتوں کے شیدائی، خلوتوں میں کھلتے ہیں
ہم سے پوچھ کر دیکھو، راز پردہ داروں کے
گیسوؤں کی چھاؤں میں، دل نواز چہرے ہیں
یا حسِیں دھندلکوں میں پھول ہیں چناروں کے
پہلے ہنس کے ملتے ہیں پھر نظر چراتے ہیں
آشنا صفت ہیں "لوگ"، "اجنبی" دیاروں کے
تم نے صرف چاہا ہے ہم نے چُھو کے دیکھے ہیں
پیرہن "گھٹاؤں" کے، "جسم" برق پاروں کے
شغلِ "مے" پرستی گو "جشنِ" نامرادی تھا
یوں بھی کٹ گئے کچھ دن تیرے سوگواروں کے

ساحر لدھیانوی

No comments:

Post a Comment