Saturday 14 December 2013

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا

ساقی کی ہر نگاہ پہ بَل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا، لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے، تھرّا کے پی گیا
زاہد! یہ میری شوخئ رندانہ دیکھنا
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستئ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دُنیائے اعتبار کو ٹُھکرا کے پی گیا
آزردگئ ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مُجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا
اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیرِ اذن، یہ کب تھی مِری مجال
درپردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جانِ مے کدہ کی قسم‘ بارہا جگر
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment