Monday, 16 December 2013

میلے میں گر نظر نہ آتا روپ کسی متوالی کا

میلے میں گَر نظر نہ آتا رُوپ کسی متوالی کا
پِھیکا پِھیکا رہ جاتا تہوار بھی اس دِیوالی کا
مایوں بیٹھے رُوپ سرُوپ کے روگ سے واقف لگتی ہے
آنچل بھیگا جاتا ہے اس دُلہن کی شاہبالی کا 
برتن برتن چیخ رہی تھی کون سمجھتا اُس کی بات
دل کا برتن خالی تھا، اُس برتن بیچنے والی کا
گال کی جانب جھکتی ہے، شرماتی ہے، ہٹ جاتی ہے
آج ارادہ ٹھیک نہیں ہے جان تمہاری بالی کا
شہزادے! تلوار تھما دے اب دربان کے ہاتھوں میں
کہہ دے، خالی ہاتھ نہ جائے اب کے بار سوالی کا
پھر ممتازؔ کسی کی یادیں کُونجیں بن کر لوٹیں گی
موسم آنے والا ہے پھر زخموں کی ہریالی کا

ممتاز گورمانی

No comments:

Post a Comment