سروں پر چرخِ زنگاری رہے گا
میاں! یہ سال بھی بھاری رہے گا
وہی خُوئے سِتمگاراں رہے گی
وہی آئینِ خُوں خواری رہے گا
رہے گا صبر بھی سینوں میں، لیکن
ہمارے ہاتھ میں کشکول ہوں گے
مزے میں صرف بیوپاری رہے گا
ہوائیں تِیر برساتی رہیں گی
چراغوں کا سفر جاری رہے گا
نور بجنوری
No comments:
Post a Comment