Sunday 29 December 2013

سچائیوں کی لو کہیں بجھتی ہوا سے ہے

سچائیوں کی لَو کہیں بجھتی ہوا سے ہے
 یہ دشت زندہ میرے چراغِ صدا سے ہے
 باہر نِکل کے دیکھیں تو آسودگانِ قصر
 کیا سارا شور میری ہی زنجیرِ پا سے ہے
 احوال کوئی پوچھے نہ پوچھے، ملال کیا
 شکوہ تو مجھ کو اپنے مزاج آشنا سے ہے
ان کی جو بے رخی تھی بدستور ہے وہی
 اپنی جو دل دہی ہے، یہی ابتدا سے ہے

محشر بدایونی 

No comments:

Post a Comment