ہم اشکِ غم ہیں، اگر تھم رہے، رہے نہ رہے
مژہ پہ آن کے ٹک جم رہے، رہے نہ رہے
رہیں وہ شخص جو بزمِ جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے، رہے نہ رہے
مُجھے ہے نزع، وہ آتا ہے دیکھنے اب آہ
بقا ہماری جو پوچھو تو جُوں چراغِ مزار
ہوا کے بیچ کوئی دَم رہے، رہے نہ رہے
چلو جو ہم سے تو مِل لو کہ ہم بہ نوکِ گیاہ
مثالِ قطرۂ شبنم رہے، رہے نہ رہے
یہی ہے عزم کہ دل بھر کے آج رو لیجے
کہ کل یہ دیدۂ پُرنم رہے، رہے نہ رہے
یہی سمجھ لو ہمیں تم کہ اِک مُسافر ہیں
جو چلتے چلتے کہیں تھم رہے، رہے نہ رہے
نظیرؔ آج ہی چل کر بُتوں سے مِل لیجے
پھر اِشتیاق کا عالم رہے، رہے نہ رہے
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment