کسی سے دل کی حکایت کبھی کہا نہیں کی
وگرنہ زندگی ہم نے بھی کیا سے کیا نہیں کی
ہر اک سے کون محبت نباہ سکتا ہے؟
سو ہم نے دوستی یاری تو کی، وفا نہیں کی
شکستگی میں بھی پندارِ دل سلامت ہے
شکایت اس کی نہیں ہے، کہ اس نے ظلم کیا
گِلہ تو یہ ہے کہ ظالم نے انتہا نہیں کی
وہ ناد ہند اگر تھا تو پھر تقاضا کیا
کہ دل تو لے گیا، قیمت مگر ادا نہیں کی
عجیب آگ ہے چاہت کی آگ بھی کہ فرازؔ
کہیں جلا نہیں کی اور کہیں بُجھا نہیں کی
احمد فراز
No comments:
Post a Comment