Friday, 20 December 2013

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے

پھر ساون رُت کی پَوَن چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پُھولوں کی تم یاد آئے
پھر کاگا بولا گھر کے سُونے آنگن میں
پھر امرت رَس کی بُوند پڑی تم یاد آئے
پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا، بجلی چمکی، تم یاد آئے
دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment