پھر ساون رُت کی پَوَن چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پُھولوں کی تم یاد آئے
پھر کاگا بولا گھر کے سُونے آنگن میں
پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا، بجلی چمکی، تم یاد آئے
دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment