Tuesday, 17 December 2013

نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا

نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پُل بنا، چاہ بنا ۔۔۔ مسجد و تالاب بنا
چشمِ مخمور کا ہوں کس کی میں کشتہ یا رب
کہ مِری خاک سے بھی جام مئے ناب بنا
ہائے پچھتاتا ہوں کیوں اس سے کِیا بگاڑ
کہ جو اس طرح سے اب پِھرتا ہوں بیتاب بنا
دلِ بیتاب کو ہم سینے میں ٹھہرا نہ سکے
شعلہ خُو دیکھتے ہی تجھ کو وہ سیماب بنا
تُو اگر آپ کو دیکھے تو مِری انکھ سے دیکھ
اپنا آئینہ مِرا دیدۂ پُر آب بنا
آیتِ سجدہ ہے حق میں ہر جوہرِ تیغ
ہے خمِ تیغ فقط کیا خمِ محراب بنا
جب کیا عشق کے دریا نے تلاطم اے ذوقؔ
تو کہیں موج بنی اور کہیں گرداب بنا

 ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment