Monday 16 December 2013

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے 
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے 
یوسفؑ نہ تھے مگر سرِ بازار آ گئے 
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے 
اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے 
اب کہ مقابلے پہ میرے یار آ گئے 
آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی 
یم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے 
ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے 
سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آ گئے 

احمد فراز

2 comments:

  1. تصحیح کر دی گئی ہے، نشاندہی کے لیے شکریہ، خوش و آباد رہیں۔

    ReplyDelete