Friday 20 December 2013

جہاں معبود ٹھہرايا گيا ہوں

جہاں معبود ٹھہرايا گيا ہوں
وہيں سُولی پہ لٹکايا گيا ہوں
سُنا ہر بار ميرا کلمۂ صدق
مگر ہر بار جھٹلايا گيا ہوں
عجب اِک سرِ مبہم ہے مِری ذات
نہ سمجھا ہوں نہ سمجھايا گيا ہوں

مِرے نقشِ قدم نظروں سے اوجھل
مگر ہر موڑ پر پايا گيا ہوں
کبھی ماضی کا جيسے تذکرہ ہو
زباں پر اِس طرح لايا گيا ہوں
مثالِ وحی حق انسانيت کے
ہر اِک وقفے ميں دُہرايا گيا ہوں
جو موسیٰؑ ہوں تو ٹھکرايا گيا تھا
جو عيسیٰؑ ہوں تو جھٹلايا گيا ہوں
جہاں ہے رسم قتلِ انبياء کی
وہاں مبعُوث فرمايا گيا ہوں
بطورِ فديہ قُربان گاہ کی سمت
کہاں سے ہانک کر لايا گيا ہوں
ابھی تدفين باقی ہے، ابھی تو
لہُو سے اپنے نہلايا گيا ہوں
دوامی عظمتوں کے مقبرے ميں
ہزاروں بار دفنايا گيا ہوں
ميں اِس حيرت سرائے آب و گل ميں
بحُکمِ خاص بھجوايا گيا ہوں
کوئی مہمان ناخواندہ نہ سمجھے
بصد اصرار بُلوايا گيا ہوں
بطورِ ارمغاں لايا گيا تھا
بطورِ ارمغاں لايا گيا ہوں
ترس کيسا کہ اِس دارالبلا ميں
ازل کے دن سے ترسايا گيا ہوں
اساسِ ابتلاء مُحکم ہے مُجھ سے
کہ ديواروں ميں چُنوايا گيا ہوں
کبھی تو نغمۂ داؤدؑ بن کر
سليماںؑ کے لئے گايا گيا ہوں
کبھي يعقوبؑ کے نوحے ميں ڈھل کر
درِ محبس پہ دُہرايا گيا ہوں
ظہور و غيب و پيدا و نہاں کيا
کہيں کھويا، کہيں پايا گيا ہوں
نجانے کون سے سانچے ميں ڈھاليں
ابھی تو صرف پِگھلايا گيا ہوں
جہاں تک مہرِ روز افروز پہنچا
وہيں تک صورتِ سايہ گيا ہوں

رئیس امروہوی

No comments:

Post a Comment