Saturday 14 December 2013

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دُور سے پہچان لیتے ہیں
مِری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں مِلتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سُنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں
جسے صورت بتاتے ہیں پتا دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ اُلفت میں
ہم اپنے سَر تِرا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں
فراق! اکثر بدل کر بھیس مِلتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment