میرا چہرہ مِرے افکار سے لپٹا ہوا ہے
سارا گھر ایک ہی دیوار سے لپٹا ہوا ہے
بات یہ ایک پرندے نے بتائی ہے مجھے
یہ شجر سایۂ دیوار سے لپٹا ہوا ہے
کیسے آتا ہے اثر میری دعاؤں میں بھلا
کربلا میں جسے شبیرؓ نے سکھلایا تھا
سارا عالم اسی انکار سے لپٹا ہے
میرا گھر اس لیے بوسیدہ نظر آتا ہے
میرا ماضی در و دیوار سے لپٹا ہوا ہے
آئینہ اس لیے تصویر دکھاتا ہی نہیں
عکس میرا مِرے کردار سے لپٹا ہوا ہیے
نام ظالم کا خبر میں نہیں آیا، لیکن
خون مظلوم کا اخبار سے لپٹا ہوا ہے
دین وه لوگ بھلا کیسے سکھائیں گے ہمیں
جن کا دِیں جبہ و دستار سے لپٹا ہوا ہے
لے کے وه کیسے ہمیں جائیں گے حق کی جانب
پاؤں جن کا کسی دربار سے لپٹا ہوا ہے
اس لیے اس سے ملاقات ضروری ہی نہیں
اس کا چہرہ مِرے اشعار سے لپٹا ہوا ہے
خوف نکلے گا کہاں من سے ہمارے نقاشؔ
جب الف امن کا تلوار سے لپٹا ہوا ہے
وصی الحسن نقاش
No comments:
Post a Comment