Sunday, 22 December 2013

لفظ لا کے لب اظہار پہ رکھ دیتے ہیں

لفظ لا کے لبِ اظہار پہ رکھ دیتے ہیں
ہم ہیں جو دائرہ پرکار پہ رکھ دیتے ہیں
مل ہی جائے گی اسے اپنی خبر رات گئے
اپنی تصویر کو اخبار پہ رکھ دیتے ہیں
سیکھنے اس لئے آتا ہے زمانہ ہم سے
جو نہیں جانتے دیوار پہ رکھ دیتے ہیں
جب کلی کھلنے کا منظر کبھی دکھلانا ہو
ہم حیا کو تِرے رُخسار پہ رکھ دیتے ہیں
اک نیا رنگ اُبھر آئے گا گھر میں اپنے
شاعری کو در و دیوار پہ رکھ دیتے ہیں
جانے کس شہرِ عجائب کے مسیحا ہیں یہاں
تازگی چہرۂ بیمار پہ رکھ دیتے ہیں
یوں کراتے ہیں کبھی اپنا تعارف ہم لوگ
معرفت دیدۂ بیدار پہ رکھ دیتے ہیں
فیصلہ ظالم و مظلوم کا کرنا ہو اگر
بات شبیرؓ کے انکار پہ رکھ دیتے ہیں
جانے کس دورِ یزیداں کے ہیں رہبر اپنے
امن کی فاختہ  تلوار پہ رکھ دیتے ہیں
سر تو اس معرکۂ جاں میں چلا جائے گا
اب قدم جبہ و دستار پہ رکھ دیتے ہیں
شعر فہمی کے نئے زاویے لایا ہے یہ دَور
لوگ مفہوم بھی اشعار پہ رکھ دیتے ہیں
کھیل ہو گا ہی نہیں ختم کبھی یہ نقاشؔ
ہم کہانی نئے کردار پہ رکھ دیتے ہیں

وصی الحسن نقاش  

No comments:

Post a Comment