آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جا رہی ہے رسوائی
ہمنشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی
آج تو وہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی
ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی
اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی
تو جو اتنا اداس ہے ناصرؔ
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی
ناصر کاظمی
بہت خوب
ReplyDelete