Friday 20 December 2013

آج تو بے سبب اداس ہے جی

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی
چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جا رہی ہے رسوائی
ہمنشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی
آج تو وہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی
ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی
اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی
تو جو اتنا اداس ہے ناصرؔ
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment