Saturday 14 December 2013

کوئی حسرت بھی نہیں کوئی تمنا بھی نہیں

کوئی حسرت بھی نہیں، کوئی تمنّا بھی نہیں
دل وہ آنسو جو کسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں
روٹھ کر بیٹھ گئی ہمتِ دُشوار پسند
راہ میں اب کوئی جلتا ہوا صحرا بھی نہیں
آگے کچھ لوگ ہمیں دیکھ کے ہنس دیتے تھے
اب یہ عالم ہے کہ کوئی دیکھنے والا بھی نہیں
درد وہ آگ کہ بُجھتی نہیں، جلتی بھی نہیں
یاد وہ زخم کہ بھرتا نہیں، رِستا بھی نہیں
بادباں کھول کے بیٹھے ہیں سفینوں والے
پار اُترنے کے لیے ہلکا سا جھونکا بھی نہیں

احمد راہی

No comments:

Post a Comment