تیری زمین تیرا آسماں برائے فروخت
مجھے تو لگتا ہے سارا جہاں برائے فروخت
بلک رہے ہیں میرے سامنے مِرے بچے
میں لکھ رہا ہوں مکاں پر مکاں برائے فروخت
ضعیف کوزہ گرا! زندگی بخیر یہ کیوں
اسے نصیب کا لکھا ہی جانئے ورنہ
کہاں وہ یوسفؑ کنعاں کہاں برائے فروخت
میں تھک گیا ہوں بغاوت کی جنگ لڑتے ہوئے
سو اب یہ تیر یہ تیغ و سناں برائے فروخت
دمشق والے ادھر منتظر ہیں اور ادھر
میری سپاہ، میرا کارواں برائے فروخت
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment