سانس کو لمحۂ موجود کی دستک نہ لکھوں
اور میں حشر کو مسجود کی دستک نہ لکھوں
میرا ہونا بھی نہ ہونے سے برا لکھا جائے
قلبِ انساں پہ جو محمود کی دستک نہ لکھوں
کانپتے ہاتھ ڈراتے ہیں مگر سوچتا ہوں
بخت کی آنکھ میں کیا دود کی دستک نہ لکھوں
چیختے حرف سنوں اور میں خاموش رہوں
آخری باب میں مشہود کی دستک نہ لکھوں
ایک بے نور عقیدے نے مجھے روک لیا
لا کی تنبیہ کو میں بود کی دستک نہ لکھوں
اور میں حشر کو مسجود کی دستک نہ لکھوں
میرا ہونا بھی نہ ہونے سے برا لکھا جائے
قلبِ انساں پہ جو محمود کی دستک نہ لکھوں
کانپتے ہاتھ ڈراتے ہیں مگر سوچتا ہوں
بخت کی آنکھ میں کیا دود کی دستک نہ لکھوں
چیختے حرف سنوں اور میں خاموش رہوں
آخری باب میں مشہود کی دستک نہ لکھوں
ایک بے نور عقیدے نے مجھے روک لیا
لا کی تنبیہ کو میں بود کی دستک نہ لکھوں
ناصر ملک
No comments:
Post a Comment