Monday, 30 December 2013

سانس کو لمحۂ موجود کی دستک نہ لکھوں

سانس کو لمحۂ موجود کی دستک نہ لکھوں
اور میں حشر کو مسجود کی دستک نہ لکھوں
میرا ہونا بھی نہ ہونے سے برا لکھا جائے
قلبِ انساں پہ جو محمود کی دستک نہ لکھوں
کانپتے ہاتھ ڈراتے ہیں مگر سوچتا ہوں
بخت کی آنکھ میں کیا دود کی دستک نہ لکھوں
چیختے حرف سنوں اور میں خاموش رہوں
آخری باب میں مشہود کی دستک نہ لکھوں
ایک بے نور عقیدے نے مجھے روک لیا
 لا کی تنبیہ کو میں بود کی دستک نہ لکھوں

ناصر ملک

No comments:

Post a Comment