Sunday 29 December 2013

یہ میز یہ کتاب یہ دیوار اور میں

 یہ میز، یہ کتاب، یہ دِیوار اور میں
 کھڑکی میں زرد پُھولوں کا انبار اور میں
 ہر شام اِس خیال سے ہوتا ہے جی اُداس
 پنچھی تو جا رہے ہیں اُفق پار اور میں
 اِک عُمر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہے
 اِک دُوسرے کے خوف سے دِیوار اور میں
لے کر تو آ گیا ہوں مِرے پاس جو بھی تھا
 اب سوچتا ہوں تیرا خریدار اور میں
پھیلی ہوئی فضاؤں میں خُوشبو ہے اِک، جسے
 پہچانتے ہیں صرف سگِ یار اور میں
 دیکھا ٹھہر ٹھہر کے زمین و زمان نے
 ثابت نہ ہو سکے کبھی سیّار اور میں
 سرکار! ہر درخت سے بنتے نہیں ہیں تخت
 قربان آپ پر مِرے اوزار اور میں
 اِک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں دیر سے
 یہ دل، یہ مِرا مرکزی کردار اور میں
 جس میں کُھلی تھی آنکھ وہ لمحہ تھا بس مِرا
 پھر شام تک جہان کے آزار اور میں
 شاید کسی کو میری ضرورت نہیں یہاں
 لیجے پُکارتا ہوں بس اِک بار اور میں
 کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے نکلا تھا آفتاب
 دُنیا تو مِل گئی سرِ بازار اور میں
 عادلؔ اگر نشاں بھی مِلے شہرِ خواب کا
 دیکھوں زمین کھود کے اِک بار اور میں

ذوالفقار عادل

No comments:

Post a Comment