Saturday 21 December 2013

کونپلیں پھر پھوٹ آئیں شاخ پر کہنا اسے

کونپلیں پھر پھوٹ آئیں شاخ پر کہنا اُسے
وہ نہ سمجھا ہے نہ سمجھے گا مگر کہنا اسے
وقت کا طوفان ہر اک شے بہا کر لے گیا
کتنی تنہا ہو گئی ہے رہگزر کہنا اسے
جا رہا ہے چھوڑ کر تنہا مجھے جس کیلئے
چین نہ دے پائے گا وہ سیم و زر کہنا اسے
رِس رہا ہو خون دل سے لب مگر ہنستے رہیں
کر گیا برباد مجھ کو یہ ہُنر کہنا اسے
ہمسفر کی چاہ میں تنہا سفر کرتے ہوئے
آ گیا ہے ختم ہونے کو سفر کہنا اسے
جس نے زخموں سے میرا شہزادؔ سینہ بھر دیا
مسکرا کر آج پیارے چارہ گر! کہنا اسے

شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment