Wednesday 18 December 2013

سرد آہیں بھروں گا تو جوانی میں بھروں گا

سرد آہیں بھروں گا تو جوانی میں بھروں گا
مرنے کا ہے موسم یہی، جی بھر کے مروں گا
آغاز طلب ہے مِرا افسانۂ ہستی
بنیاد تِری آنکھ کی مستی پہ دھروں گا
حالات مجھے خوابِ پریشان بنا لیں
حالات کو کچھ میں بھی پریشان کروں گا
تو رُوپ میں انساں کے مِرے سامنے آ جا
اللہ! تجھے صِدق بھرا سجدہ کروں گا
گمنام ہوں، ناپید ہوں، گویا کہ نہیں ہوں
جینا مِرا تسلیم ہو پہلے، تو مروں گا
جو بات چھپاتا ہوں وہ ہے پہلے ہی رُسوا
لیتے ہیں تِرا نام کہ میں آہ بھروں گا
آ جاتی ہیں خود لب پہ مِرے آپکی باتیں
اندیشہ ہے میں آپ کو بدنام کروں گا
اے موت! خرابات میں ملنا کبھی آ کر
رِندانہ جیا ہوں تو میں رِندانہ مروں گا
اس ہوش نے کیا کیا مجھے گمراہ کیا ہے
اس ہوش کو میں بھی ذرا گمراہ کروں گا
شاعر ہوں عدمؔ موت کی تقریب تو ہو کچھ
مے پی کے کسی شوخ کے زانو پہ مروں گا

عبدالحميد عدم

No comments:

Post a Comment