دور فلک جب دُہراتا ہے موسمِ گل کی راتوں کو
کنجِ قفس میں سُن لیتے ہیں بُھولی بِسری باتوں کو
ریگِ رواں کی نرم تہوں کو چھیڑتی ہے جب کوئی ہوا
سُونے صحرا چیخ اُٹھتے ہیں آدھی آدھی راتوں کو
آتشِ غم کے سیلِ رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
مے خانے کا افسُردہ ماحول تو یوں ہی تکتا ہے
خشک لبوں کی خیر مناؤ کچھ نہ کہو برساتوں کو
ناصرؔ میرے منہ کی باتیں یوں تو سچّے موتی ہیں
لیکن ان کی باتیں سن کر بُھول گئے سب باتوں کو
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment