Sunday, 29 December 2013

سب خواب ہیں اشکوں کی روانی کے حوالے

سب خواب ہیں اشکوں کی روانی کے حوالے
لو ہم نے کِیا پیاس کو، پانی کے حوالے
 تُو زُود فراموش نہیں،۔ پر یہ بتا دے
کیا عشق بھی ہے یاد دہانی کے حوالے
 اے عمرِ رواں اب تیری رفتار کا ڈر کیا
میں خود کو کیا اس کی جوانی کے حوالے
ہر شب میں وہی ایک ملاقات بسی ہے
جو کی تھی کبھی رات کی رانی کے حوالے
 پیغام سنایا ہے یہی صبحِ سفر نے
اسباب کرو نقل مکانی کے حوالے
 اب تک تو کہانی کو چلاتے رہے کِردار
کِردار مگر اب ہیں کہانی کے حوالے
 اشعار میں ڈھلتی گئی کیفیتِ ہستی
لفظوں کو کیا جب سے معنی کے حوالے
 جاذبؔ یہ بچاتا میں نشانے سے کہاں تک
اِک جان تھی سو کی ہے نشانی کے حوالے

شکیل جاذب

No comments:

Post a Comment