Friday 20 December 2013

کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در

کہیں اُجڑی اُجڑی سی منزلیں کہیں ٹُوٹے پُھوٹے سے بام و در
یہ وہی دیار ہے دوستو! جہاں لوگ پِھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پِھرتا ہوں دیر سے یونہی شہر شہر، نگر نگر
کہاں کھو گیا مرا قافلہ، کہاں رہ گئے مرے ہمسفر
جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینۂ چاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
مری بے کسی کا نہ غم کرو، مگر اپنا فائدہ سوچ لو
تمہیں جس کی چھاؤں عزیز ہے میں اُسی درخت کا ہوں ثمر
یہ بجا ہے آج اندھیرا ہے، ذرا رُت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خُشک ہے وہی شاخ لائے گی برگ و بر

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment