Monday 23 December 2013

سر میں سودا بھی ہے اور خاک بھی ڈالی ہوئی ہے

سر میں سودا بھی ہے اور خاک بھی ڈالی ہوئی ہے
دونوں ہاتھوں سے یہ دستار سنبھالی ہوئی ہے
یہ جو جگنو ہیں، اندھیرا نہیں ہونے دیتے
ہم نے بھی سینے میں اک جوت جگا لی ہوئی ہے
ہم نے پھولوں کے علاقے میں قدم رکھنا ہے
وادئ خار سے اک راہ نکالی ہوئی ہے
وہ جو اک جاہ کی خواہش تھی اسے ترک کیا
خاکساروں میں جگہ ہم نے بنا لی ہوئی ہے
رنگ بھر بھر کے لئے پھرتی ہے قریہ قریہ
اک ہوا نے مِری مہکار چرا لی ہوئی ہے
آنکھ والوں کو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی
ایسے لگتا ہے کہ ہر آنکھ نکالی ہوئی ہے
ناتوانی کو تیقّن نہیں گرنے دیتا
ایک اک اینٹ نے دیوار سنبھالی ہوئی ہے
ہم نہیں جانتے اب کون وہاں رہتا ہے
ہم نے اس در سے توقع ہی اٹھا لی ہوئی ہے
چشمِ بے مہر کے صدقے نہیں جاتے طاہرؔ
عشق کی جھولی عنایات سے خالی ہوئی ہے

سلیم طاہر

No comments:

Post a Comment