یہ جہاں اُس جہاں سے ملتا ہے
لامکاں بھی مکاں سے ملتا ہے
کتنا محدود کر لیا خود کو
اب خدا بھی اذاں سے ملتا ہے
عشق میں ہارنا ضروری ہے
یہ تو ہوتا ہی ہے محبت میں
ہر سِرا درمیاں سے ملتا ہے
مر کے شاید یہ راز کُھل جائے
ہر نسب خاکداں سے ملتا ہے
جس کو کہتے ہیں ہجر اور وصال
یہ تماشا کہاں سے ملتا ہے
کر رہا ہوں تلاشِ رزقِ وفا
وہ بھی کیا آسماں سے ملتا ہے
شہر کے شہر ہیں کہ جن کا پتہ
اب صفِ رفتگاں سے ملتا ہے
کیوں ہمیشہ تِرا پتہ نقاشؔ
بزمِ اہلِ زباں سے ملتا ہے
وصی الحسن نقاش
No comments:
Post a Comment