Wednesday 18 December 2013

ہم تھے نیازمند شوق شوق نے ہم کو کیا دیا

ہم تھے نیازمندِ شوق، شوق نے ہم کو کیا دیا
صبح کا دُکھ بڑھا دیا، شام کا دُکھ بڑھا دیا
دن میں عذابِ ذات کے، تُو مِرا ساتھ بھی تو دے
نیند تھی میری زندگی، تُو نے مُجھے جگا دیا
واعظ و زاہد و فقیہ، تم کو بتائے بھی تو کون
وہ بھی عجیب شخص تھا، جس نے ہمیں خدا دیا
تُو نے بھی اپنے خدّ و خال، جانے کہاں گنوا دیے
میں نے بھی اپنے خواب کو، جانے کہاں گنوا دیا
جانے وہ کاروانِ جاں، کیوں نہ گزر سکا جسے
تُو نے بھی راستہ دیا، میں نے بھی راستہ دیا
تُو مِرا حوصلہ تو دیکھ، میں ہی کب اپنے ساتھ ہوں
تُو مِرا کربِ جاں تو دیکھ، میں نے تُجھے بھلا دیا
ہم جو گِلہ گزار ہیں، کیوں نہ گِلہ گزار ہوں
میں نے بھی اُسکو کیا دیا، اُس نے بھی مُجھکو کیا دیا
قید کے کھل رہے تھے دَر، وقت تھا دلنواز تر
رنگ کی موج آئی تھی، ہم نے اُسے گنوا دیا
ہم بھی خدا سے کم نہیں، جو اُسے ماننے لگے
وہ بھی خدا سے کم نہ تھا، جس نے ہمیں خُدا دیا

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment