عکس بھی عرصۂ حیران میں رکھا ہُوا ہے
کون یہ آئینہ رُو، دھیان میں رکھا ہوا ہے
شام کی شام سے سرگوشی سُنی تھی اک بار
بس تبھی سے تجھے امکان میں رکھا ہوا ہے
ہاں ترے ذکر پہ اک کاٹ سی اُٹھتی ہے ابھی
ایک ہی آگ میں جلنا تو ضروری نہیں ہے
ہاں مگر چہرہ وہی دھیان میں رکھا ہوا ہے
روح جھلسا رہی ہوں سائے بھرے موسم میں
دشتِ بے آب کو دوران میں رکھا ہوا ہے
رابطے اُس سے سبھی توڑ کے یاد آیا ہے
آخری وعدہ تو سامان میں رکھا ہو ہے
راس آتا ہی نہیں کوئی تعلق ناہید
دلِ خوش فہم مگر مان میں رکھا ہوا ہے
ناہید ورک
No comments:
Post a Comment