اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ھیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
پھرتے ہیں مثلِ موج ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شامِ الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment