Tuesday 24 December 2013

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چَیت کا، اس پہ تیرا جمال بھی
سب سے نظر بچا کہ وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی، گردشِ ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا، پھر بھی ترش کے دیکھ لو
شیشہ گرانِ شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب، دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے، بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص، وہ جو نہیں مِلا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی
شام کی ناسمجھ ہوا، پوچھ رہی ہے اِک پتہ
موجِ ہوائے کوئے یار کچھ تو میرا خیال بھی
اس کے بازوؤں میں اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment