Sunday 15 December 2013

پہلے تو خلاؤں میں کچھ اشکال بناؤں

پہلے تو خلاؤں میں کچھ اشکال بناؤں
پھر واہموں سے اُن کے خد و خال بناؤں
دیوار بنانی ہے مجھے ریت سے ایسی
طوفان میں، آندھی میں جسے ڈھال بناؤں
کب تک یہ تِرے گیسو پریشان رہیں گے
اے زندگی! آ جا میں تِرے بال بناؤں
کاغذ پہ جو محنت سے بنایا ہے پرندہ
سچ مچ میں اگر اُس کے پر و بال بناؤں
جو وقت گزارے سے، گزرتا نہیں مجھ سے
ہے اُس کا تقاضا کہ مہ و سال بناؤں
بنتا جو نہیں مجھ سے، بہرحال بناؤں
لازم ہے بلندی پہ ہی پاتال بناؤں

اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment