Tuesday 17 December 2013

کیا کیا ہمارے خواب تھے جانے کہاں پہ کھو گئے

کیا کیا ہمارے خواب تھے، جانے کہاں پہ کھو گئے
تم بھی کسی کے ساتھ ہو، ہم بھی کسی کے ہو گئے
جانے وہ کیوں تھے, کون تھے, آئے تھے کس لیے یہاں
وہ جو فشارِ وقت میں، بوجھ سا ایک دھو گئے
اس کی نظر نے یوں کیا گردِ ملالِ جان کو صاف
اَبر برس کے جس طرح، سارے چمن کو دھو گئے
کٹنے سے اور بڑھتی ہے اُٹھے ہوئے سرو کی فصیل
اپنے لہو سے اہلِ دل، بیج یہ کیسے بو گئے
جن کے بغیر اِک پَل، جینا بھی مُحال تھا
شکلیں بھی انکی بجھ گئیں، نام بھی ان کے کھو گئے
آنکھوں میں بھر کے رتجگے، رَستوں کو دے کے دُوریاں
امجدؔ وہ اپنے ہم سفر، کیسے مزے سے سو گئے

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment