Wednesday 25 December 2013

کب اترے گا روح سے گارا مٹی کا

کب اترے گا روح سے گارا مٹی کا
مٹی کی ہے جھیل، کنارا مٹی کا
آنکھوں میں ہے صحراؤں سا سُونا پن
پاؤں کے نیچے ہے انگارا مٹی کا
میں نے ہر دم کی دلداری مٹی کی
میں نے ہر دم قرض اتارا مٹی کا
میں نے چودہ چاند کئے ہیں جس کے نام
اس نے بھیجا ایک ستارا مٹی کا
اس کے ہیں سب روپ سبھی بہروپ یہاں
کھیل تماشا ہے یہ سارا مٹی کا
مٹی کو روندا مٹی کا خون کیا
ہو گا آخر کار اجارا مٹی کا
میں نے پاؤں جما رکھے اوصافؔ یہاں
میں نے سمجھا صاف اشارا مٹی کا


اوصاف شیخ

No comments:

Post a Comment