اِک چادرِ بوسیدہ، میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولتِ دُنیا کو، پاپوش پہ رکھتا ہوں
آنکھوں کو ٹِکاتا ہوں، ہنگامۂ دُنیا پر
اور کان سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں
کیفیتِ بے خبری کیا چیز ہے، کیا جانوں
بُنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں
جو قرض کی مئے پی کر، تسخیرِ سخن کر لے
ایماں اُسی دِلّی کے مئے نوش پہ رکھتا ہوں
آفتاب اقبال شمیم
اور دولتِ دُنیا کو، پاپوش پہ رکھتا ہوں
آنکھوں کو ٹِکاتا ہوں، ہنگامۂ دُنیا پر
اور کان سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں
کیفیتِ بے خبری کیا چیز ہے، کیا جانوں
بُنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں
میں کون ہوں، ازلوں کی حیرانیاں کیا بولیں
اِک قرض ہمیشہ کا، میں گوش پہ رکھتا ہوںجو قرض کی مئے پی کر، تسخیرِ سخن کر لے
ایماں اُسی دِلّی کے مئے نوش پہ رکھتا ہوں
آفتاب اقبال شمیم
No comments:
Post a Comment