Saturday, 21 December 2013

ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہیئے

ہر وقت فکرِ مرگِ غریبانہ چاہیئے
صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیئے
دنیائے بے طریق میں جس سمت بھی چلو
رَستے میں اِک سلامِ رفیقانہ چاہیئے
آنکھوں میں اُمڈے روح کی نزدیکیوں کے ساتھ
ایسا بھی ایک دُور کا یارانہ چاہیئے
کیا پستیوں کی ذلتیں، کیا عظمتوں کے فوز
اپنے لیے عذابِ جُداگانہ چاہیئے
اب دردِ شش بھی سانس کی کوشش میں ہے شریک
اب کیا ہو، اب تو نیند کو آ جانا چاہیئے
روشن ترائیوں سے اُترتی ہوا میں آج
دو چار گام لغزشِ مستانہ چاہیئے

مجید امجد

No comments:

Post a Comment