Tuesday 31 December 2013

ہوں کیوں نہ پشیماں در و دیوار ہمارے

ہوں کیوں نہ پشیماں در و دیوار ہمارے
 ملتے ہیں کسی دشت سے آثار ہمارے
 ہم لوگ اگر گھر میں چراغوں کو جگہ دیں
 جل جائیں حسد سے در و دیوار ہمارے
وہ جنسِ گراں ہم ہیں کہ بازارِ جہاں میں
 ڈھونڈے سے نہیں ملتے خریدار ہمارے
 مُدت سے یہ اِک دل کہ جو دل بن نہیں پایا
 آیا ہے مگر کام کئی بار ہمارے
 گو نقش ہوئے جاتے ہیں ہم آب رواں پر
 کھلتے نہیں دریاؤں پہ اسرار ہمارے
 اندر کو رہی یونہی جو آنکھوں کی روانی
 کر جائے گی کچھ خوابوں کو بے کار ہمارے
 گو صورتِ دریا بڑی مُدت سے رواں ہیں
 اُترا ہی نہیں کوئی کبھی پار ہمارے
 ہم شام کے منظر میں ستاروں کی طرح ہیں
 اشرفؔ ہیں اندھیرے بھی چمکدار ہمارے 

 اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment