عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
بات شبیر کی گفتار میں رکھی ہوئی ہے
وجہِ انکار بھی انکار میں رکھی ہوئی ہے
سامنے سے کبھی ہٹتی نہیں صبحِ عاشور
میں نے وہ دیدۂ بیدار میں رکھی ہوئی ہے
دینِ حق جس سے شفایاب نظر آتا ہے
کربلا اس لئے نسلوں کی محافظ ہے مِری
یہ کہانی میرے کردار میں رکھی ہوئی ہے
کوئی ظالم اسے اب کیسے مٹا سکتا ہے
کربلا قلبِ عزادار میں رکھی ہوئی ہے
دیکھ کر حُرؓ کے مقدر کو یقیں یہ آیا
جرأتِ حق بھی گنہگار میں رکھی ہوئی ہے
دھوپ میں بیٹھی ہوئی سوچتی ہیں اْمِ رباب
قتل گاہ سایۂ دیوار میں رکھی ہوئی ہے
کربلا ان کی مخالف ہے کے جن لوگوں نے
عزتِ نفس بھی دستار میں رکھی ہوئی ہے
فرق جو ڈھونڈتے ہیں آج بھی خیر و شر میں
گفتگو ان سے تو بے کار میں رکھی ہوئی ہے
جانے کس دورِ خراباں میں پڑے ہیں نقاش
امن کی بات بھی تلوار میں رکھی ہوئی ہے
وصی الحسن نقاش
No comments:
Post a Comment