Tuesday 24 December 2013

جاگ اٹھیں گے درد پرانے زخموں کی انگنائی میں

جاگ اٹھیں گے درد پرانے زخموں کی انگنائی میں
دل کی چوٹ ابھر آئے گی مت نکلو پُروائی میں
کوئل کُوکی، موجِ صبا نے پاؤں میں گھنگھرو باندھ لیے
پیار کا نغمہ چھیڑ رہا ہے آج کوئی شہنائی میں
جو پہلے بدنام ہوئے تھے ان کو دنیا بھول گئی
ہم نے کیسے رنگ بھرے ہیں عشق تیری رُسوائی میں
کون تمہارے دکھ بانٹے گا، کون یہ ناز اٹھائے گا
ہم جس وقت نہ ہوں گے جاناں تڑپو گے تنہائی میں
آج فنا کے پیچھے پیچھے خاک اُڑاتے پھرتے ہیں
لوگوں نے کیا دیکھ لیا ہے آج تیرے سودائی میں

فنا بلند شہری

1 comment: