جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
تُو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے
خیال ہی نہیں آتا کسی مصیبت کا
ترے خیال میں ہر بات غم ربا سی ہے
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ کیوں اداسی ہے
دلِ غمیں سے بھی جلتے ہیں شادمانِ حیات
اسی چراغ سے اب شہر میں ہوا سی ہے
ہمیں سے آنکھ چُراتا ہے اس کا ہر ذرہ
مگر یہ خاک ہمارے ہی خوں کی پیاسی ہے
اداس پھرتا ہوں میں جسکی دھن میں برسوں سے
یونہی سی ہے وہ خوشی بات وہ ذرا سی ہے
چہکتے بولتے شہروں کو کیا ہوا ناصرؔ
کہ دن کو بھی مرے گھر میں وہی اداسی ہے
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment