Friday 20 December 2013

جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے

جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
تُو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے
خیال ہی نہیں‌ آتا کسی مصیبت کا
ترے خیال میں ہر بات غم ربا سی ہے
جہاں میں یوں تو کسے چین ہے مگر پیارے
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ کیوں‌ اداسی ہے
دلِ غمیں سے بھی جلتے ہیں‌ شادمانِ حیات
اسی چراغ سے اب شہر میں‌ ہوا سی ہے
ہمیں ‌سے آنکھ چُراتا ہے اس کا ہر ذرہ
مگر یہ خاک ہمارے ہی خوں کی پیاسی ہے
اداس پھرتا ہوں میں جسکی دھن میں برسوں سے
یونہی سی ہے وہ خوشی بات وہ ذرا سی ہے
چہکتے بولتے شہروں کو کیا ہوا ناصرؔ
کہ دن کو بھی مرے گھر میں وہی اداسی ہے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment