Sunday, 29 December 2013

مجھ کو اتنی تو نہ ايذائے سفر دی جائے

مجھ کو اتنی تو نہ ايذائے سفر دی جائے
 دھوپ دی ہے تو کچھ چھاؤں بھی کر دی جائے
 اس درِ عدل پہ کیا کوئی پُکارے کہ جہاں
 سی دیئے جائيں لب، آواز اگر دی جائے
 کچھ تو ساماں ہو میسّر، ہمیں حفظِ جاں کا
 چلئے شمشیر نہ دی جائے، سِپر دی جائے
وقت نے ڈھالے ہیں کچھ ایسے کھلونے بھی کہ اب
 ڈر ہے ان میں کہيں بارود نہ بھر دی جائے
 لوگ سمجھے ہی نہیں کیا ہے ہمارا کردار
 ہم تو جاں دیں، ہمیں توقیر اگر دی جائے
 باخبر غیر ہی کیا کم ہیں مِرے غم میں شریک
 بے خبر اپنوں کو کیوں میری خبر دی جائے
 کیا وہاں شرمِ دل و دیدہ، جہاں حال یہ ہو
 حُرمتِ صِدق و صَفا، طاق میں دھر دی جائے
 جلتے چھوڑ آیا ہے جو خِرمن و خاشاک اپنے
 اب جگہ اس کو سرِ شاخِ شجر دی جائے
 خُونچکاں دست و قلم بھی لئے گھر سے نکلے
 شاید اب ہم کو کہیں دادِ ہُنر دی جائے

محشر بدایونی 

No comments:

Post a Comment