ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے
ہم نے تو اپنے جسم پر زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے
میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اِس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے
دیوار کیا گری مِرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رَستے بنا لیے
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قباء میں سجا لیے
ہر حُرملہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچے چھپا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے
ہم نے تو اپنے جسم پر زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے
میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اِس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے
دیوار کیا گری مِرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رَستے بنا لیے
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قباء میں سجا لیے
ہر حُرملہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچے چھپا لیے
سبط علی صبا
No comments:
Post a Comment